EN हिंदी
حکیم ناصر شیاری | شیح شیری

حکیم ناصر شیر

14 شیر

آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی

حکیم ناصر




آسان کس قدر ہے سمجھ لو مرا پتہ
بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا

حکیم ناصر




دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیا
ہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو

حکیم ناصر




گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے

حکیم ناصر




جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

حکیم ناصر




جس نے بھی مجھے دیکھا ہے پتھر سے نوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں

حکیم ناصر




مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی
میری مدہوشی مرے جام سے آگے نہ بڑھی

حکیم ناصر




پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

حکیم ناصر




تمہارے بعد اجالے بھی ہو گئے رخصت
ہمارے شہر کا منظر بھی گاؤں جیسا ہے

حکیم ناصر