عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی
آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی
آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی
مجھ کو رخصت کر رہے ہیں وہ عجب انداز سے
آنکھ میں آنسو لبوں پر یہ ہنسی دیکھی نہ تھی
کس قدر خوش ہوں میں ناصرؔ ان کو پا لینے کے بعد
ایسا لگتا ہے کبھی ایسی خوشی دیکھی نہ تھی
غزل
عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
حکیم ناصر