جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا
دیوانہ لے کے جان کا نذرانہ آئے گا
تجھ کو بھلا کے لوں گا میں خود سے بھی انتقام
جب میرے ہاتھ میں کوئی پیمانہ آئے گا
آسان کس قدر ہے سمجھ لو مرا پتہ
بستی کے بعد پہلا جو ویرانہ آئے گا
اس کی گلی میں سر کی بھی لازم ہے احتیاط
پتھر اٹھا کے ہاتھ میں دیوانہ آئے گا
ناصرؔ جو پتھروں سے نوازا گیا ہوں میں
مرنے کے بعد پھولوں کا نذرانہ آئے گا
غزل
جب بھی جلے گی شمع تو پروانہ آئے گا
حکیم ناصر