کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے
وہ ایک شخص جو سچ مچ خداؤں جیسا ہے
ہماری شمع تمنا بھی جل کے خاک ہوئی
ہمارے شعلوں کا عالم چتاؤں جیسا ہے
وہ بس گیا ہے جو آ کر ہماری سانسوں میں
جبھی تو لہجہ ہمارا دعاؤں جیسا ہے
تمہارے بعد اجالے بھی ہو گئے رخصت
ہمارے شہر کا منظر بھی گاؤں جیسا ہے
وہ ایک شخص جو ہم سے ہے اجنبی اب تک
خلوص اس کا مگر آشناؤں جیسا ہے
ہمارے غم میں وہ زلفیں بکھر گئیں ناصرؔ
جبھی تو آج کا موسم بھی چھاؤں جیسا ہے
غزل
کبھی وہ ہاتھ نہ آیا ہواؤں جیسا ہے
حکیم ناصر