اس راہ محبت میں تو آزار ملے ہیں
پھولوں کی تمنا تھی مگر خار ملے ہیں
انمول جو انساں تھا وہ کوڑی میں بکا ہے
دنیا کے کئی ایسے بھی بازار ملے ہیں
جس نے بھی مجھے دیکھا ہے پتھر سے نوازا
وہ کون ہیں پھولوں کے جنہیں ہار ملے ہیں
مالک یہ دیا آج ہواؤں سے بچانا
موسم ہے عجب آندھی کے آثار ملے ہیں
دنیا میں فقط ایک زلیخا ہی نہیں تھی
ہر یوسف ثانی کے خریدار ملے ہیں
اب ان کے نہ ملنے کی شکایت نہ گلہ ہے
ہم جب بھی ملے خود سے تو بے زار ملے ہیں
ناصرؔ یہ تمنا تھی محبت سے ملیں گے
وہ جب بھی ملے بر سر پیکار ملے ہیں
غزل
اس راہ محبت میں تو آزار ملے ہیں
حکیم ناصر