مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی
میری مدہوشی مرے جام سے آگے نہ بڑھی
دل کی حسرت دل ناکام سے آگے نہ بڑھی
زندگی موت کے پیغام سے آگے نہ بڑھی
وہ گئے گھر کے چراغوں کو بجھا کر میرے
پھر ملاقات مری شام سے آگے نہ بڑھی
رہ گئی گھٹ کے تمنا یوں ہی دل میں اے دوست
گفتگو اپنی ترے نام سے آگے نہ بڑھی
وہ مجھے چھوڑ کے اک شام گئے تھے ناصرؔ
زندگی اپنی اسی شام سے آگے نہ بڑھی
غزل
مےکشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی
حکیم ناصر