EN हिंदी
آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے | شیح شیری
aankhon ne haal kah diya honT na phir hila sake

غزل

آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے

حکیم ناصر

;

آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے
دل میں ہزار زخم تھے جو نہ انہیں دکھا سکے

گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے

شکوہ نہیں ہے عرض ہے ممکن اگر ہو آپ سے
دیجے مجھ کو غم ضرور دل جو مرا اٹھا سکے

وقت قریب آ گیا حال عجیب ہو گیا
ایسے میں تیرا نام ہم پھر بھی نہ لب پہ لا سکے

اس نے بھلا کے آپ کو نظروں سے بھی گرا دیا
ناصر خستہ حال پھر کیوں نہ اسے بھلا سکے