آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے
دل میں ہزار زخم تھے جو نہ انہیں دکھا سکے
گھر میں جو اک چراغ تھا تم نے اسے بجھا دیا
کوئی کبھی چراغ ہم گھر میں نہ پھر جلا سکے
شکوہ نہیں ہے عرض ہے ممکن اگر ہو آپ سے
دیجے مجھ کو غم ضرور دل جو مرا اٹھا سکے
وقت قریب آ گیا حال عجیب ہو گیا
ایسے میں تیرا نام ہم پھر بھی نہ لب پہ لا سکے
اس نے بھلا کے آپ کو نظروں سے بھی گرا دیا
ناصر خستہ حال پھر کیوں نہ اسے بھلا سکے
غزل
آنکھوں نے حال کہہ دیا ہونٹ نہ پھر ہلا سکے
حکیم ناصر