EN हिंदी
غالب ایاز شیاری | شیح شیری

غالب ایاز شیر

7 شیر

بھلے ہی چھاؤں نہ دے آسرا تو دیتا ہے
یہ آرزو کا شجر ہے خزاں رسیدہ سہی

غالب ایاز




ہم اس کے جبر کا قصہ تمام چاہتے ہیں
اور اس کی تیغ ہمارا زوال چاہتی ہے

غالب ایاز




ہوا کے ہونٹ کھلیں ساعت کلام تو آئے
یہ ریت جیسا بدن آندھیوں کے کام تو آئے

غالب ایاز




پھر یہی رت ہو عین ممکن ہے
پر ترا انتظار ہو کہ نہ ہو

غالب ایاز




تمام عمر اسے چاہنا نہ تھا ممکن
کبھی کبھی تو وہ اس دل پہ بار بن کے رہا

غالب ایاز




تمہارے در سے اٹھائے گئے ملال نہیں
وہاں تو چھوڑ کے آئے ہیں ہم غبار اپنا

غالب ایاز




زندگانی میں سبھی رنگ تھے محرومی کے
تجھ کو دیکھا تو میں احساس زیاں سے نکلا

غالب ایاز