جبین شوق پہ گرد ملال چاہتی ہے
مری حیات سفر کا مآل چاہتی ہے
میں وسعتوں کا طلب گار اپنے عشق میں ہوں
وہ میری ذات میں اک یرغمال چاہتی ہے
ہمیں خبر ہے کہ اس مہرباں کی چارہ گری
ہمارے زخموں کا کب اندمال چاہتی ہے
تمہارے بعد مری آنکھ ضد پہ آ گئی ہے
وہی جمال وہی خد و خال چاہتی ہے
ہم اس کے جبر کا قصہ تمام چاہتے ہیں
اور اس کی تیغ ہمارا زوال چاہتی ہے
ہری رتوں کو ادھر کا پتہ نہیں معلوم
برہنہ شاخ عبث دیکھ بھال چاہتی ہے
غزل
جبین شوق پہ گرد ملال چاہتی ہے
غالب ایاز