ہوا کرے گا ہر اک لفظ مشکبار اپنا
ابھی سکوں سے کیے جاؤ انتظار اپنا
اٹھا لیا ہے حلف گرچہ جاں نثاری کا
مجھے سنبھال کہ ہوتا ہوں بار بار اپنا
اداس آنکھ کو ہے انتظار فصل مراد
کبھی تو موسم جاں ہوگا سازگار اپنا
تمہارے در سے اٹھائے گئے ملال نہیں
وہاں تو چھوڑ کے آئے ہیں ہم غبار اپنا
بہت بلند ہوئی جاتی ہے انا کی فصیل
سو ہم بھی تنگ کیے جاتے ہیں حصار اپنا
ہر اک چراغ کو ہے دشمنی ہوا کے ساتھ
بچاری لے کے کہاں جائے انتشار اپنا
غزل
ہوا کرے گا ہر اک لفظ مشکبار اپنا
غالب ایاز