EN हिंदी
کبھی گمان کبھی اعتبار بن کے رہا | شیح شیری
kabhi guman kabhi etibar ban ke raha

غزل

کبھی گمان کبھی اعتبار بن کے رہا

غالب ایاز

;

کبھی گمان کبھی اعتبار بن کے رہا
دیار چشم میں وہ انتظار بن کے رہا

ہزار خواب مری ملکیت میں شامل تھے
میں تیرے عشق میں سرمایہ دار بن کے رہا

تمام عمر اسے چاہنا نہ تھا ممکن
کبھی کبھی تو وہ اس دل پہ بار بن کے رہا

اسی کے نام کروں میں تمام عہد خیال
درون جاں جو مرے سوگوار بن کے رہا

اگرچہ شہر میں ممنوع تھی حمایت خواب
مگر یہ دل سبب انتشار بن کے رہا