EN हिंदी
حسن کے زیر بار ہو کہ نہ ہو | شیح شیری
husn ke zer-e-bar ho ki na ho

غزل

حسن کے زیر بار ہو کہ نہ ہو

غالب ایاز

;

حسن کے زیر بار ہو کہ نہ ہو
اب یہ دل بے قرار ہو کہ نہ ہو

مرگ انبوہ دیکھ آتے ہیں
آنکھ پھر اشکبار ہو کہ نہ ہو

کرب پیہم سے ہو گیا پتھر
اب یہ سینہ فگار ہو کہ نہ ہو

پھر یہی رت ہو عین ممکن ہے
پر ترا انتظار ہو کہ نہ ہو

شاخ زیتون کے امیں ہیں ہم
شہر میں انتشار ہو کہ نہ ہو

شعر میرے سنبھال کر رکھنا
اب غزل مشکبار ہو کہ نہ ہو