درد جب دسترس چارہ گراں سے نکلا
حرف انکار محبت کی زباں سے نکلا
زندگانی میں سبھی رنگ تھے محرومی کے
تجھ کو دیکھا تو میں احساس زیاں سے نکلا
سب بہ آسانی مرے خواب کو پڑھ لیتے تھے
پھر تو میں انجمن دل زدگاں سے نکلا
جذبۂ عشق نے جب ایڑیاں اپنی رگڑیں
خاک اڑاتا ہوا اک دشت وہاں سے نکلا
روزن جسم میں اک درد ہوا تھا داخل
آخر آخر میں وہ دروازۂ جاں سے نکلا
مدتوں تک مری تخئیل امیں تھی اس کی
اور اک دن وہ مری حد گماں سے نکلا

غزل
درد جب دسترس چارہ گراں سے نکلا
غالب ایاز