جہاں خراب سہی ہم بدن دریدہ سہی
تری تلاش میں نکلے ہیں پا بریدہ سہی
جہان شعر میں میری کئی ریاستیں ہیں
میں اپنے شہر میں گمنام و ناشنیدہ سہی
بھلے ہی چھاؤں نہ دے آسرا تو دیتا ہے
یہ آرزو کا شجر ہے خزاں رسیدہ سہی
انہی بجھی ہوئی آنکھوں میں خواب اتریں گے
یقیں نہ چھوڑ یہ بیمار و شب گزیدہ سہی
دلوں کو جوڑنے والی غزل سلامت ہے
تعلقات ہمارے بھلے کشیدہ سہی

غزل
جہاں خراب سہی ہم بدن دریدہ سہی
غالب ایاز