ہوا کے ہونٹ کھلیں ساعت کلام تو آئے
یہ ریت جیسا بدن آندھیوں کے کام تو آئے
منافقت کی سبھی تہمتیں مجھے دے دے
مرے طفیل رفیقوں میں تیرا نام تو آئے
اسے اداس نہ کر دے یہ میری سست روی
میں اب کے سست چلوں وہ سبک خرام تو آئے
غم حیات غم روزگار بے وطنی
سکون سے جو ڈھلے کاش ایسی شام تو آئے
غزل
ہوا کے ہونٹ کھلیں ساعت کلام تو آئے
غالب ایاز