ہر اک شے خون میں ڈوبی ہوئی ہے
کوئی اس طرح سے پیدا نہ ہوتا
فضل تابش
کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر
بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا
فضل تابش
مانگنے سے ہوا ہے وہ خود سر
کچھ دنوں کچھ نہ مانگ کر دیکھو
فضل تابش
نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی
یہ زندگی ہے حسابوں سے جی نہیں جاتی
فضل تابش
رات کو خواب بہت دیکھے ہیں
آج غم کل سے ذرا ہلکا ہے
فضل تابش
سنتے ہیں کہ ان راہوں میں مجنوں اور فرہاد لٹے
لیکن اب آدھے رستے سے لوٹ کے واپس جائے کون
فضل تابش
سورج اونچا ہو کر میرے آنگن میں بھی آیا ہے
پہلے نیچا تھا تو اونچے میناروں پر بیٹھا تھا
فضل تابش
وہی دو چار چہرے اجنبی سے
انہیں کو پھر سے دہرانا پڑے گا
فضل تابش
یہ بستی کب درندوں سے تھی خالی
میں پھر بھی ٹھیک لوگوں میں رہا ہوں
فضل تابش