EN हिंदी
نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی | شیح شیری
na kar shumar ki har shai gini nahin jati

غزل

نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی

فضل تابش

;

نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی
یہ زندگی ہے حسابوں سے جی نہیں جاتی

یہ نرم لہجہ یہ رنگینئ بیاں یہ خلوص
مگر لڑائی تو ایسے لڑی نہیں جاتی

سلگتے دن میں تھی باہر بدن میں شب کو رہی
بچھڑ کے مجھ سے بس اک تیرگی نہیں جاتی

نقاب ڈال دو جلتے اداس سورج پر
اندھیرے جسم میں کیوں روشنی نہیں جاتی

ہر ایک راہ سلگتے ہوئے مناظر ہیں
مگر یہ بات کسی سے کہی نہیں جاتی

مچلتے پانی میں اونچائی کی تلاش فضول
پہاڑ پر تو کوئی بھی ندی نہیں جاتی