راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا
سایے کے طور لیٹ کے چلنا سکھا دیا
کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر
بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا
وہ کل شراب پی کے بھی سنجیدہ ہی رہا
اس احتیاط نے اسے مجھ سے چھڑا دیا
جب کوئی بھی اتر نہ سکا میرے جسم میں
سب حال میں نے صرف اسی کو سنا دیا
اپنا لہو نچوڑ کے دیکھوں گا ایک دن
جینے کے زہر نے اسے کیا کچھ بنا دیا
غزل
راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا
فضل تابش