رشتہ کھجیایا ہوا کتا ہے
ایک کونے میں پٹک رکھا ہے
رات کو خواب بہت دیکھے ہیں
آج غم کل سے ذرا ہلکا ہے
میں اسے یوں ہی بچا دیتا ہوں
وہ نشانے پہ کھنچا بیٹھا ہے
جب بھی چوکو گے پھسل جائے گا
ہاں وہ گرنے پہ تلا بیٹھا ہے
رات سورج کو نگل ہی لے گی
پھر بھی دن اپنی جگہ بڑھیا ہے
کون سے جلتے دنوں کی باتیں
تم نے سورج ہی کہاں دیکھا ہے

غزل
رشتہ کھجیایا ہوا کتا ہے
فضل تابش