اسے معلوم ہے میں سرپھرا ہوں
مگر خوش ہے کہ اس کو چاہتا ہوں
یہ بستی کب درندوں سے تھی خالی
میں پھر بھی ٹھیک لوگوں میں رہا ہوں
جو چاہے وہ مجھے بے دام لے لے
خریداروں کے ہاتھوں کم بکا ہوں
تری چاہت بہانہ ہے یقیں کر
بہ ہر صورت میں خود کو چاہتا ہوں
ذرا سن بے نیاز لمس سن لے
میں تجھ کو چھو کے خود کو بھولتا ہوں
کہاں توڑا ہے میں نے شاخ سے گل
میں شاخ گل پہ گل کو مانتا ہوں

غزل
اسے معلوم ہے میں سرپھرا ہوں
فضل تابش