EN हिंदी
اس کمرے میں خواب رکھے تھے کون یہاں پر آیا تھا | شیح شیری
is kamre mein KHwab rakkhe the kaun yahan par aaya tha

غزل

اس کمرے میں خواب رکھے تھے کون یہاں پر آیا تھا

فضل تابش

;

اس کمرے میں خواب رکھے تھے کون یہاں پر آیا تھا
گم سم روشندانو بولو کیا تم نے کچھ دیکھا تھا

اندھے گھر میں ہر جانب سے بد روحوں کی یورش تھی
بجلی جلنے سے پہلے تک وہ سب تھیں میں تنہا تھا

مجھ سے چوتھی بنچ کے اوپر کل شب جو دو سائے تھے
جانے کیوں ایسا لگتا ہے اک تیرے سائے سا تھا

سورج اونچا ہو کر میرے آنگن میں بھی آیا ہے
پہلے نیچا تھا تو اونچے میناروں پر بیٹھا تھا

ماضی کی نیلی چھتری پر یادوں کے انگارے تھے
خواہش کے پیلے پتوں پر گرنے کا ڈر بیٹھا تھا

دل نے گھنٹوں کی دھڑکن لمحوں میں پوری کر ڈالی
ویسے انجانی لڑکی نے بس کا ٹائم پوچھا تھا