EN हिंदी
ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا | شیح شیری
har ek darwaza mujh par band hota

غزل

ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا

فضل تابش

;

ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا
اندھیرا جسم میں ناخون ہوتا

یہ سورج کیوں بھٹکتا پھر رہا ہے
مرے اندر اتر جاتا تو سوتا

ہر اک شے خون میں ڈوبی ہوئی ہے
کوئی اس طرح سے پیدا نہ ہوتا

بس اب اقرار کو اوڑھو بچھاؤ
نہ ہوتے خوار جو انکار ہوتا

صلیبوں میں ٹنگے بھی آدمی ہیں
اگر ان کو بھی خود سے پیار ہوتا