خواہشوں کے حصار سے نکلو
جلتی سڑکوں پہ ننگے پاؤں پھرو
رات کو پھر نگل گیا سورج
شام تک پھر ادھر ادھر بھٹکو
شرم پیشانیوں پہ بیٹھی ہے
گھر سے نکلو تو سر جھکائے رہو
مانگنے سے ہوا ہے وہ خود سر
کچھ دنوں کچھ نہ مانگ کر دیکھو
جس سے ملتے ہو کام ہوتا ہے
بے غرض بھی کبھی کسی سے ملو
در بہ در خاک اڑائی ہے دن بھر
گھر بھی جانا ہے ہاتھ منہ دھو لو
غزل
خواہشوں کے حصار سے نکلو
فضل تابش