اب کے روٹھے تو منانے نہیں آیا کوئی 
بات بڑھ جائے تو ہو جاتی ہے کم آپ ہی آپ
ف س اعجاز
اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے 
دوسری عورت پہلی جیسی کب ہوتی ہے
ف س اعجاز
ہزاروں سال کی تھی آگ مجھ میں 
رگڑنے تک میں اک پتھر رہا تھا
ف س اعجاز
عشق کیا تو اپنی ہی نادانی تھی 
ورنہ دنیا جان کی دشمن کب ہوتی ہے
ف س اعجاز
جو مرا ہے حادثے میں مرا اس سے کیا تھا رشتہ 
یہ سڑک جو خوں میں تر ہے مجھے کیوں پکارتی ہے
ف س اعجاز
کیسے آتا ہے دبے پاؤں گناہوں کا خیال 
کتنی خاموشی سے دروازہ کھلا تھا پہلے
ف س اعجاز
کس انمول پشیمانی کی دولت ہے ان آنکھوں میں 
پلکوں پر دو آنسو جھمکیں موتی کے سے دانے دو
ف س اعجاز
کوئی تو ضد میں یہ آ کر کبھی کہے ہم سے 
یہ بات یوں نہیں ایسے تھی یوں ہوا ہوگا
ف س اعجاز
میں کہاں آیا ہوں لائے ہیں تری محفل میں 
مری وحشت مرے مجبور قدم آپ ہی آپ
ف س اعجاز

