EN हिंदी
سمندر سر پٹک کر مر رہا تھا | شیح شیری
samundar sar paTak kar mar raha tha

غزل

سمندر سر پٹک کر مر رہا تھا

ف س اعجاز

;

سمندر سر پٹک کر مر رہا تھا
تو میں جینے کی کوشش کر رہا تھا

کسی سے بھی نہیں تھا خوف مجھ کو
میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا تھا

گزارش وقت سے میں نے نہ کی تھی
کہ میرا زخم خود ہی بھر رہا تھا

ہزاروں سال کی تھی آگ مجھ میں
رگڑنے تک میں اک پتھر رہا تھا

تجھے اس دن کی چوٹیں یاد ہوں گی
مجھے پہچان، تیرے گھر رہا تھا