سمندر سر پٹک کر مر رہا تھا
تو میں جینے کی کوشش کر رہا تھا
کسی سے بھی نہیں تھا خوف مجھ کو
میں اپنے آپ ہی سے ڈر رہا تھا
گزارش وقت سے میں نے نہ کی تھی
کہ میرا زخم خود ہی بھر رہا تھا
ہزاروں سال کی تھی آگ مجھ میں
رگڑنے تک میں اک پتھر رہا تھا
تجھے اس دن کی چوٹیں یاد ہوں گی
مجھے پہچان، تیرے گھر رہا تھا
غزل
سمندر سر پٹک کر مر رہا تھا
ف س اعجاز