دیا جلا کے کوئی چاند پر رکھا ہوگا
اسی کے سائے میں وہ ہم کو ڈھونڈھتا ہوگا
کوئی تو ضد میں یہ آ کر کبھی کہے ہم سے
یہ بات یوں نہیں ایسے تھی یوں ہوا ہوگا
تمہارا گھر سر مہتاب جو بنا ڈالے
تمہارا بیٹا نہیں وہ خدا رہا ہوگا
وہ آنکھیں ابر کی مانند رو رہی ہوں گی
وہ زینہ خواب میں مہتاب پر ٹکا ہوگا
یہ کیا ضروری ہے آنکھوں میں دیر تک رہنا
خیال آپ ہی تصویر بن گیا ہوگا
سنہرے پنجرے کی اپنی ہی حیثیت ہوگی
پرندہ خوش ہے مگر خوب چیختا ہوگا
کہا ہے ایک نجومی نے تم ملوگے ہمیں
زمیں سے چاند تلک ایک راستہ ہوگا
خدا کرے کہ بہت جلد تم کو دیکھ آئیں
تمہارے گھر میں اب اک پھول کھل اٹھا ہوگا
غزل
دیا جلا کے کوئی چاند پر رکھا ہوگا
ف س اعجاز