اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے
دوسری عورت پہلی جیسی کب ہوتی ہے
کچھ مفہوم سمجھ کر آنکھیں بول اٹھیں
سرگوشی تو یوں ہی زیر لب ہوتی ہے
کوئی مسیحا شاید اس کو چھو گزرا
دل کے اندر اتنی روشنی کب ہوتی ہے
تارے ٹوٹ کے دامن میں گر جاتے ہیں
جب مہمان یہاں اک دختر شب ہوتی ہے
اک بے داغ دوپٹے میں پاکیزہ نور
کتنی اجلی اس کی نماز میں چھب ہوتی ہے
گری پڑی دیکھی ہے سڑک پر تنہائی
پچھلے پہر کو شہر کی نیند عجب ہوتی ہے
اکثر میں نے قبرستان میں غور کیا
اپنی مٹی اپنے ہاتھ میں کب ہوتی ہے
اب لگتا ہے اک دل بھی ہے سینے میں
پہلے کچھ تکلیف نہیں تھی اب ہوتی ہے
عشق کیا تو اپنی ہی نادانی تھی
ورنہ دنیا جان کی دشمن کب ہوتی ہے
قدم قدم پر ہم نے آپ سے نفرت کی
ایسی محبت دل میں کسی کے کب ہوتی ہے
جیسے اک جنت کی نعمت مل جائے
میرے لئے تو گھر کی فضا ہی سب ہوتی ہے
ڈوبنے والا پھر اوپر آ جاتا ہے
کبھی کبھی دریا کی موج غضب ہوتی ہے
رشک سے میرا چہرہ تکتی ہے دنیا
جان کی دشمن اس کی سرخیٔ لب ہوتی ہے
غزل
اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے
ف س اعجاز