EN हिंदी
کوئی آنکھ چپکے چپکے مجھے یوں نہارتی ہے | شیح شیری
koi aankh chupke chupke mujhe yun nihaarti hai

غزل

کوئی آنکھ چپکے چپکے مجھے یوں نہارتی ہے

ف س اعجاز

;

کوئی آنکھ چپکے چپکے مجھے یوں نہارتی ہے
مرے دل میں اک تمنا کہیں سر ابھارتی ہے

مری سوچ کا طریقہ مری آنکھ کا سلیقہ
یہی شے ہے تیرے اندر جو تجھے سنوارتی ہے

نئے شوق کی چمک ہے کسی میہماں نظر میں
مری روح میں اتر کر مرے سر ابھارتی ہے

مجھے کچھ دنوں سے اس سے بڑا پیار مل رہا ہے
کبھی اپنے دل کو وارے کبھی جان ہارتی ہے

کبھی جوڑا کھول دینا کبھی پھر سے باندھ لینا
مجھے شک سا ہو چلا ہے وہ مجھے ابھارتی ہے

کوئی گونج بن کے اب تک وہ ہے جسم و جاں سے لپٹی
کہ ٹھہر ٹھہر کے اب بھی وہ مجھے پکارتی ہے

گھنے ہو گئے زیادہ جہاں چاندنی کے سائے
اسی دامن شجر میں وہ مجھے پکارتی ہے

نیا حسن دیکھتا ہوں خم شاخ ہر شجر پر
یہ بہار اپنے تن سے جو لباس اتارتی ہے

کئی سال کی محبت مگر آج بھی وہی ہے
کہ میں اک شریر بچہ وہ مجھے سدھارتی ہے

بڑی دیر سے ہوں لوٹا مجھے یہ بتاؤ لوگو
مری آرزو کا دامن وہ کہاں پسارتی ہے

جو مرا ہے حادثے میں مرا اس سے کیا تھا رشتہ
یہ سڑک جو خوں میں تر ہے مجھے کیوں پکارتی ہے