عجیب شخص تھا میں بھی بھلا نہیں پایا
کیا نہ اس نے بھی انکار یاد آنے سے
اعجاز گل
اطوار اس کے دیکھ کے آتا نہیں یقیں
انساں سنا گیا ہے کہ آفاق میں رہا
اعجاز گل
بے سبب جمع تو کرتا نہیں تیر و ترکش
کچھ ہدف ہوگا زمانے کی ستم گاری کا
اعجاز گل
بجھی نہیں مرے آتش کدے کی آگ ابھی
اٹھا نہیں ہے بدن سے دھواں کہاں گیا میں
اعجاز گل
چاہا تھا مفر دل نے مگر زلف گرہ گیر
پیچاک بناتی رہی پیچاک سے باہر
اعجاز گل
در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر
یہ شور سا کیسا ہے مری خاک سے باہر
اعجاز گل
دھوپ جوانی کا یارانہ اپنی جگہ
تھک جاتا ہے جسم تو سایہ مانگتا ہے
اعجاز گل
دنوں مہینوں آنکھیں روئیں نئی رتوں کی خواہش میں
رت بدلی تو سوکھے پتے دہلیزوں میں در آئے
اعجاز گل
حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر
پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا
اعجاز گل