عکس ابھرا نہ تھا آئینۂ دل داری کا
ہجر نے کھینچ دیا دائرہ زنگاری کا
ناز کرتا تھا طوالت پہ کہ وقت رخصت
بھید سائے پہ کھلا شام کی عیاری کا
جس قدر خرچ کیے سانس ہوئی ارزانی
نرخ گرتا گیا رسم و رہ بازاری کا
رات نے خواب سے وابستہ رفاقت کے عوض
راستہ بند رکھا دن کی نموداری کا
ایسا ویران ہوا ہے کہ خزاں روتی ہے
کل بہت شور تھا جس باغ میں گل کاری کا
بے سبب جمع تو کرتا نہیں تیر و ترکش
کچھ ہدف ہوگا زمانے کی ستم گاری کا
پا بہ زنجیر کیا تھا مجھے آسانی نے
مرحلہ ہو نہ سکا طے کبھی دشواری کا
مطمئن دل ہے عجب بھیڑ سے غم خواروں کی
سلسلہ طول پکڑ لے نہ یہ بیماری کا
غزل
عکس ابھرا نہ تھا آئینۂ دل داری کا
اعجاز گل