خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا
ورنہ تو ہر درخت پہ قبضہ ہے زاغ کا
حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر
پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا
ہے ارتکاز ذات میں وقفہ ذرا سی دیر
ٹوٹا نہیں ہے رابطہ لو سے چراغ کا
کب کس پہ مہربان ہو اور کب الٹ پڑے
کس کو یہاں پتا ہے کسی کے دماغ کا
ہوتا ہے پھر وہ اور کسی یاد کے سپرد
رکھتا ہوں جو سنبھال کے لمحہ فراغ کا
مشق سخن میں دل بھی ہمیشہ سے ہے شریک
لیکن ہے اس میں کام زیادہ دماغ کا
غزل
خاشاک سے خزاں میں رہا نام باغ کا
اعجاز گل