ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ
اعجاز گل
عجیب شخص تھا میں بھی بھلا نہیں پایا
کیا نہ اس نے بھی انکار یاد آنے سے
اعجاز گل
حیرت ہے سب تلاش پہ اس کی رہے مصر
پایا گیا سراغ نہ جس بے سراغ کا
اعجاز گل
دنوں مہینوں آنکھیں روئیں نئی رتوں کی خواہش میں
رت بدلی تو سوکھے پتے دہلیزوں میں در آئے
اعجاز گل
دھوپ جوانی کا یارانہ اپنی جگہ
تھک جاتا ہے جسم تو سایہ مانگتا ہے
اعجاز گل
در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر
یہ شور سا کیسا ہے مری خاک سے باہر
اعجاز گل
چاہا تھا مفر دل نے مگر زلف گرہ گیر
پیچاک بناتی رہی پیچاک سے باہر
اعجاز گل
بجھی نہیں مرے آتش کدے کی آگ ابھی
اٹھا نہیں ہے بدن سے دھواں کہاں گیا میں
اعجاز گل
بے سبب جمع تو کرتا نہیں تیر و ترکش
کچھ ہدف ہوگا زمانے کی ستم گاری کا
اعجاز گل