قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے
راکھ اڑی خیمہ گاہوں کی خون میں لتھڑے سر آئے
گلیوں میں گھمسان کا رن ہے معرکہ دست بدست ہے یاں
جسے بھی خود پر ناز بہت ہو آنگن سے باہر آئے
اک آسیب سا لہراتا ہے بستی کی شہ راہوں پر
شام ڈھلے جو گھر سے نکلے لوٹ کے پھر نہیں گھر آئے
دنوں مہینوں آنکھیں روئیں نئی رتوں کی خواہش میں
رت بدلی تو سوکھے پتے دہلیزوں میں در آئے
ایک دیا روشن رکھنا دیوار پہ چاند ستاروں سا
ابر اٹھے بارش برسے یا ہواؤں کا لشکر آئے
ورنہ کس نے پار کیا تھا رستہ بھری دوپہروں کا
کچھ ہم سے دیوانے تھے جو طے یہ مسافت کر آئے
غزل
قافلہ اترا صحرا میں اور پیش وہی منظر آئے
اعجاز گل