در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر
یہ شور سا کیسا ہے مری خاک سے باہر
روداد گزشتہ تو سنی کوزہ گری کی
فردا کا بھی کر ذکر جو ہے چاک سے باہر
خوش آیا عجب عشق کو یہ جامۂ زیبا
نکلا نہیں پھر ہجر کی پوشاک سے باہر
چاہا تھا مفر دل نے مگر زلف گرہ گیر
پیچاک بناتی رہی پیچاک سے باہر
آتا نہیں کچھ یاد کہ اے ساعت نسیاں
کیا رکھا ترے طاق پہ کیا طاق سے باہر
سنتا ہوں کہیں دور سے نقارا صبا کا
اتری ہے بہار اب کے بھی خاشاک سے باہر
کچھ دیر ٹھہر اور ذرا دیکھ تماشا
ناپید ہیں یہ رونقیں اس خاک سے باہر
موجود خلا میں ہیں اگر اور زمینیں
افلاک بھی ہوں گے کہیں افلاک سے باہر
غزل
در کھول کے دیکھوں ذرا ادراک سے باہر
اعجاز گل