EN हिंदी
گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے | شیح شیری
gali se apni uThata hai wo bahane se

غزل

گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے

اعجاز گل

;

گلی سے اپنی اٹھاتا ہے وہ بہانے سے
میں بے خبر رہوں دنیا کے آنے جانے سے

کبھی کبھی تو غنیمت ہے یاد رفتہ کی
بٹھا نہ روز لگا کے اسے سرہانے سے

عجیب شخص تھا میں بھی بھلا نہیں پایا
کیا نہ اس نے بھی انکار یاد آنے سے

اٹھا رکھی ہے کسی نے کمان سورج کی
گرا رہا ہے مرے رات دن نشانے سے

کوئی سبب تو ہے ایسا کہ ایک عمر سے ہیں
زمانہ مجھ سے خفا اور میں زمانے سے