اہل دنیا سے مجھے تو کوئی اندیشہ نہ تھا
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پر جم گیا
احترام اسلام
اس بار بھی شعلوں نے مچا ڈالی تباہی
اس بار بھی شعلوں کو ہوا دی گئی شاید
احترام اسلام
لڑکھڑا کر گر پڑی اونچی عمارت دفعتاً
دفعتاً تعمیر کی کرسی پہ کھنڈر جم گیا
احترام اسلام
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا
خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی
احترام اسلام
شعر کے روپ میں دیتے رہنا
احترامؔ اپنی خبر آگے بھی
احترام اسلام
توقیر اندھیروں کی بڑھا دی گئی شاید
اک شمع جو روشن تھی بجھا دی گئی شاید
احترام اسلام
اسی سے مجھ کو ملا اشتیاق منزل کا
مرے سفر کو فضائے سفر اسی سے ملی
احترام اسلام
یاد تھا سقراطؔ کا قصہ سبھی کو احترامؔ
سوچئے ایسے میں بڑھ کر سچ کو سچ کہتا تو کون
احترام اسلام