ڈھونڈ سایہ نہ شجر آگے بھی
طے جو کرنا ہے سفر آگے بھی
یوں ہی شمشیروں کو للکارے گا
رہ گیا دھڑ پہ جو سر آگے بھی
دور تک نام نہیں سائے کا
ہیں تو پیچھے بھی شجر آگے بھی
کیوں ستم گر کو ستم گر بولو
زندہ رہنا ہے اگر آگے بھی
روکتا کون سفر کس دل سے
تھی مرادوں کی ڈگر آگے بھی
دائرے ٹوٹ نہ پائے ورنہ
جا تو سکتی تھی نظر آگے بھی
کیا خوشامد سے جھٹکنا دامن
کام دے گا یہ ہنر آگے بھی
سو جنم لے کے جہاں پہونچا ہوں
مجھ کو جانا ہے مگر آگے بھی
شعر کے روپ میں دیتے رہنا
احترامؔ اپنی خبر آگے بھی
غزل
ڈھونڈ سایہ نہ شجر آگے بھی
احترام اسلام