حادثوں کا سلسلہ منظر بہ منظر جم گیا
ہر کسی کے دھڑ پہ اک فرعون کا سر جم گیا
خاک کی کشتی تلے سونے کا ساغر جم گیا
دیدۂ بے خواب میں خواب سکندر جم گیا
موسموں کے بیچ کی دوری کا اندازہ لگاؤ
بہہ گئے پربت پگھل کر اور سمندر جم گیا
لڑکھڑا کر گر پڑی اونچی عمارت دفعتاً
دفعتاً تعمیر کی کرسی پہ کھنڈر جم گیا
رفعت چرخ بریں محدود ہو کر رہ گئی
جب سروں پر دھند کا سفاک لشکر جم گیا
دیدۂ گربہ سے کیا پھوٹی شعاع جاں گزا
پھڑپھڑایا تک نہیں زندہ کبوتر جم گیا
اہل دنیا سے مجھے تو کوئی اندیشہ نہ تھا
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پر جم گیا
غزل
حادثوں کا سلسلہ منظر بہ منظر جم گیا
احترام اسلام