EN हिंदी
غیظ کا سورج تھا سر پر سچ کو سچ کہتا تو کون | شیح شیری
ghaiz ka suraj tha sar par sach ko sach kahta to kaun

غزل

غیظ کا سورج تھا سر پر سچ کو سچ کہتا تو کون

احترام اسلام

;

غیظ کا سورج تھا سر پر سچ کو سچ کہتا تو کون
راس آتا کس کو محشر سچ کو سچ کہتا تو کون

سب نے پڑھ رکھا تھا سچ کی جیت ہوتی ہے مگر
تھا بھروسہ کس کو سچ پر سچ کو سچ کہتا تو کون

مان رکھتا کون وش کا کون اپناتا صلیب
کوئی عیسیٰ تھا نہ شنکر سچ کو سچ کہتا تو کون

تھا کسی کا بھی نہ مقصد سچ کو جھٹلانا مگر
منہ میں رکھ کر لقمۂ تر سچ کو سچ کہتا تو کون

آدمی تو خیر سے بستی میں ملتے ہی نہ تھے
دیوتا تھے سو تھے پتھر سچ کو سچ کہتا تو کون

سب حقیقت میں ابھرتا جب بھی سچ لگتا نہ تھا
خواب میں ہوتے اجاگر سچ کو سچ کہتا تو کون

یاد تھا سقراطؔ کا قصہ سبھی کو احترامؔ
سوچئے ایسے میں بڑھ کر سچ کو سچ کہتا تو کون