توقیر اندھیروں کی بڑھا دی گئی شاید
اک شمع جو روشن تھی بجھا دی گئی شاید
پھر دربدری ہونے لگی اس کا مقدر
پھر شوق کے شعلوں کو ہوا دی گئی شاید
موہوم نظر آتا ہے اب جوش ملاقات
کچھ گرمیٔ احساس گھٹا دی گئی شاید
اس بار بھی شعلوں نے مچا ڈالی تباہی
اس بار بھی شعلوں کو ہوا دی گئی شاید
ٹکتیں نہیں دنیائے حقیقت پہ نگاہیں
خوابوں کی کوئی بزم سزا دی گئی شاید
آ ٹھہری تھی جو ضبط کے اسرار سے بچ کر
آنکھوں سے وہی بوند گرا دی گئی شاید
قاتل کو بٹھایا گیا سر پر مرے ہوتے
مجھ کو مری اوقات بتا دی گئی شاید

غزل
توقیر اندھیروں کی بڑھا دی گئی شاید
احترام اسلام