منتشر ہر شے قرینے سے سجا دی جائے گی
یا مرے کمرے کی شخصیت مٹا دی جائے گی
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا
خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی
آگ بھڑکے گی ہوا پا کر بڑا سچ یہ نہیں
سچ بڑا یہ ہے کہ شعلوں کو ہوا دی جائے گی
بے ٹھکانہ یوں کیا جائے گا اک جلتا چراغ
طاقچے میں موم کی گڑیا بٹھا دی جائے گی
آئنہ حالات کا آئے گا جو بھی دیکھنے
کوئی عمدہ سی غزل اس کو سنا دی جائے گی
بولنے پر کوئی پابندی نہیں کچھ بولئے
ہاں مگر آواز اٹھے گی دبا دی جائے گی
سر بکف ہو جائیں گے پیر و جواں سب دیکھنا
دیش کی خاطر متاع جاں لٹا دی جائے گی
غیرممکن کچھ نہیں دنیا میں لیکن احترامؔ
آپ کی صحبت بھلا کیسے بھلا دی جائے گی
غزل
منتشر ہر شے قرینے سے سجا دی جائے گی
احترام اسلام