امرت رس کی بین پر زہر کے نغمے گاؤ
مرہم سے مسکان کے زخموں کو اکساؤ
بیکل اتساہی
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
بیکل اتساہی
بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں پیراہن
میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام لکھتا ہوں
بیکل اتساہی
بیکلؔ جی کس فکر میں بیٹھے ہو من مار
کاغذ کی اک اوٹ ہے زنداں کی دیوار
بیکل اتساہی
بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
بیکل اتساہی
چاندی کے گھروندوں کی جب بات چلی ہوگی
مٹی کے کھلونوں سے بہلائے گئے ہوں گے
بیکل اتساہی
دور حاضر کی بزم میں بیکلؔ
کون ہے آدمی نہیں معلوم
بیکل اتساہی
فرشتے دیکھ رہے ہیں زمین و چرخ کا ربط
یہ فاصلہ بھی تو انساں کی ایک جست لگے
بیکل اتساہی
فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل نہ سکا
میں جسے ڈھونڈھ رہا تھا مرے اندر نکلا
بیکل اتساہی