EN हिंदी
نظر کی فتح کبھی قلب کی شکست لگے | شیح شیری
nazar ki fath kabhi qalb ki shikast lage

غزل

نظر کی فتح کبھی قلب کی شکست لگے

بیکل اتساہی

;

نظر کی فتح کبھی قلب کی شکست لگے
مری حیات پرائے کا بند و بست لگے

نہ وہ نقوش نہ حسن کشش کی بات رہی
صنم فروش بھی جیسے خدا پرست لگے

ابھی ملا تھا ابھی پھر بچھڑ گیا کوئی
یہ حادثہ بھی حکایات بود و ہست لگے

فرشتے دیکھ رہے ہیں زمین و چرخ کا ربط
یہ فاصلہ بھی تو انساں کی ایک جست لگے

وہاں سفینے کو پہنچا دیا ہے طوفاں نے
ہر ایک موج بلا اب جہاں سے پست لگے

ترے ہی غم نے کسی سمت دیکھنے نہ دیا
کہ اب ہجوم تمنا بھی تنگ دست لگے

جو تیری بزم سے بیکلؔ چلا تو ہوش میں تھا
عجیب بات ہے اب وہ بھی مست مست لگے