یوں تو کہنے کو تری راہ کا پتھر نکلا
تو نے ٹھوکر جو لگا دی تو مرا سر نکلا
لوگ تو جا کے سمندر کو جلا آئے ہیں
میں جسے پھونک کر آیا وہ مرا گھر نکلا
ایک وہ شخص جو پھولوں سے بھرے تھا دامن
ہر کف گل میں چھپائے ہوئے خنجر نکلا
یوں تو الزام ہے طوفاں پہ ڈبو دینے کا
تہہ میں دریا کی مگر ناؤ کا لنگر نکلا
گھر کے گھر خاک ہوئے جل کے ندی سوکھ گئی
پھر بھی ان آنکھوں میں جھانکا تو سمندر نکلا
فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل نہ سکا
میں جسے ڈھونڈھ رہا تھا مرے اندر نکلا
غزل
یوں تو کہنے کو تری راہ کا پتھر نکلا
بیکل اتساہی