EN हिंदी
میں جب بھی کوئی اچھوتا کلام لکھتا ہوں | شیح شیری
main jab bhi koi achhuta kalam likhta hun

غزل

میں جب بھی کوئی اچھوتا کلام لکھتا ہوں

بیکل اتساہی

;

میں جب بھی کوئی اچھوتا کلام لکھتا ہوں
تو پہلے ایک غزل تیرے نام لکھتا ہوں

بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں پیراہن
میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام لکھتا ہوں

چلے تو ٹوٹیں چٹانیں رکے تو آگ لگے
شمیم گل کو تو نازک خرام لکھتا ہوں

گھٹائیں جھوم کے برسیں جھلس گئی کھیتی
یہ حادثہ ہے بصد احترام لکھتا ہوں

زمین پیاسی ہے بوڑھا گگن بھی بھوکا ہے
میں اپنے عہد کے قصے تمام لکھتا ہوں

چمن کو اوروں نے لکھا ہے مے کدہ بر دوش
میں پھول پھول کو آتش بجام لکھتا ہوں

نہ رابطہ نہ کوئی ربط ہی رہا بیکلؔ
اس اجنبی کو مگر میں سلام لکھتا ہوں