جب کوچۂ قاتل میں ہم لائے گئے ہوں گے
پردے بھی دریچوں کے سرکائے گئے ہوں گے
مے خانے میں جب زاہد پہنچائے گئے ہوں گے
خاطر کے سلیقے سب اپنائے گئے ہوں گے
جب سطوت شاہی کو کچھ ٹھیس لگی ہوگی
سولی پہ کئی سرمد لٹکائے گئے ہوں گے
چاندی کے گھروندوں کی جب بات چلی ہوگی
مٹی کے کھلونوں سے بہلائے گئے ہوں گے
جب شیش محل کوئی تعمیر ہوا ہوگا
دیواروں میں دیوانے چنوائے گئے ہوں گے
وہ کچھ بھی کہیں لیکن تنہائی کے عالم میں
کچھ گیت ترے بیکلؔ دہرائے گئے ہوں گے
غزل
جب کوچۂ قاتل میں ہم لائے گئے ہوں گے
بیکل اتساہی