ہر ایک لحظہ مری دھڑکنوں میں چبھتی تھی
عجیب چیز مرے دل کے آس پاس رہی
بیکل اتساہی
امرت رس کی بین پر زہر کے نغمے گاؤ
مرہم سے مسکان کے زخموں کو اکساؤ
بیکل اتساہی
فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل نہ سکا
میں جسے ڈھونڈھ رہا تھا مرے اندر نکلا
بیکل اتساہی
فرشتے دیکھ رہے ہیں زمین و چرخ کا ربط
یہ فاصلہ بھی تو انساں کی ایک جست لگے
بیکل اتساہی
دور حاضر کی بزم میں بیکلؔ
کون ہے آدمی نہیں معلوم
بیکل اتساہی
چاندی کے گھروندوں کی جب بات چلی ہوگی
مٹی کے کھلونوں سے بہلائے گئے ہوں گے
بیکل اتساہی
بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
بیکل اتساہی
بیکلؔ جی کس فکر میں بیٹھے ہو من مار
کاغذ کی اک اوٹ ہے زنداں کی دیوار
بیکل اتساہی
بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں پیراہن
میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام لکھتا ہوں
بیکل اتساہی