EN हिंदी
ازلان شاہ شیاری | شیح شیری

ازلان شاہ شیر

15 شیر

چند قدموں سے زیادہ نہیں چلنے پاتے
جس کو دیکھو وہی قیدی کسی زنجیر کا ہے

ازلان شاہ




چپکے سے گزرتے ہیں خبر بھی نہیں ہوتی
دن رات بھی کم بخت جوانی کی طرح ہیں

ازلان شاہ




ایڑیاں مار کے زخمی بھی ہوئے لوگ مگر
کوئی چشمہ نہیں زرخیز زمیں سے نکلا

ازلان شاہ




ہار کو جیت کے امکان سے باندھے ہوئے رکھ
اپنی مشکل کسی آسان سے باندھے ہوئے رکھ

ازلان شاہ




ہارے ہوئے لوگوں کی کہانی کی طرح ہیں
ہم لوگ بھی بہتے ہوئے پانی کی طرح ہیں

ازلان شاہ




کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے
مگر یہ دنیا کہ ہر بار اپنی ہوتی ہے

ازلان شاہ




کس لئے اس سے نکلنے کی دعائیں مانگوں
مجھ کو معلوم ہے منجدھار سے آگے کیا ہے

ازلان شاہ




کسی کے نام پہ ننھے دیے جلاتے ہوئے
خدا کو بھول گئے نیکیاں کماتے ہوئے

ازلان شاہ




مجھ کو پہچان تو اے وقت میں وہ ہوں جو فقط
ایک غلطی کے لئے عرش بریں سے نکلا

ازلان شاہ