EN हिंदी
کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے | شیح شیری
kaman na tir na talwar apni hoti hai

غزل

کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے

ازلان شاہ

;

کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے
مگر یہ دنیا کہ ہر بار اپنی ہوتی ہے

یہی سکھایا ہے ہم کو ہمارے لوگوں نے
جو جنگ جیتے وہ تلوار اپنی ہوتی ہے

زبان چڑیوں کی دنیا سمجھ نہیں سکتی
قبول و رد کی یہ تکرار اپنی ہوتی ہے

نہ ہاتھ سوکھ کے جھڑتے ہیں جسم سے اپنے
نہ شاخ کوئی ثمر بار اپنی ہوتی ہے

جو ہاتھ آئے اسے روند کر چلا جائے
گزرتے وقت کی رفتار اپنی ہوتی ہے

جگہ جگہ سے نوالے اٹھانے پڑتے ہیں
تلاش رزق کی بیگار اپنی ہوتی ہے