EN हिंदी
ازلان شاہ شیاری | شیح شیری

ازلان شاہ شیر

15 شیر

نہ ہاتھ سوکھ کے جھڑتے ہیں جسم سے اپنے
نہ شاخ کوئی ثمر بار اپنی ہوتی ہے

ازلان شاہ




طویل عمر کی ڈھیروں دعائیں بھیجی ہیں
مرے چراغ کو پانی سے بھرنے والوں نے

ازلان شاہ




تم محبت کا اسے نام بھی دے لو لیکن
یہ تو قصہ کسی ہاری ہوئی تقدیر کا ہے

ازلان شاہ




تو آ گیا ہے تو اب یاد بھی نہیں مجھ کو
یہ عشق میرا برا حال کرنے والا تھا

ازلان شاہ




تو بات نہیں سنتا یہی حل ہے پھر اس کا
جھگڑے کے لیے وقت نکالیں کوئی ہم بھی

ازلان شاہ




یہ خزانے کا کوئی سانپ بنا ہوتا ہے
آدمی عشق میں دنیا سے برا ہوتا ہے

ازلان شاہ